kaun samjhe…

Kon Samjhay

یہ جولائی 2009 کی بات ہے۔ میں بہاولنگر کے مضافات میں موروثی بیماریوں پر ریسرچ کے سلسلے میں فیلڈ میں کام کررہاتھا کہ اطلاع ملی کہ ایک گھر میں دو بھائی اور ایک بہن ذہنی معذوری میں مبتلا ہیں۔ میں اُس محلے میں پہنچا تو پڑوسیوں نے بتایا کہ لڑکے آس پاس کہیں گھومتے پھرتے مل جائیں گے جبکہ لڑکی کو گھر میں زنجیروں سے باندھا جاتا ہے سو گھر میں مل جائیگی۔ میں نے اُس وقت تک ایسی خبریں ٹی وی پر ہی دیکھی تھیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے صحن میں ایک چارپائی کیساتھ زنجیروں سے بندھی ہوئی چھوٹے سر والی ایک لڑکی نظر آگئی (مقامی لوگ ایسے مریضوں کو دولے شاہ کے چوہے یا شاہ دولے کہتے ہیں)۔

میں فورا” لڑکی کیطرف بڑھا، لیکن ابھی میں نے زنجیر کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ایک خاتون جھٹ سے سامنے آکھڑی ہوئیں اور غصے سے مجھے گھورنے لگیں۔ میں اُسے نظرانداز کرکے زنجیر کھولنے کیلئے جھکا تو اُس نے مجھے کاندھوں سے پکڑکر پیچھے دھکیل دیا۔

“کیسے لوگ ہو تُم؟ احساس ہی نہیں کہ اس بیچاری پر کیا گُزر رہی ہے”، میں نے غُصے سے کہا۔

وہ جواب میں تقریبا” چیخ اُٹھی، “اِسے تُم نے نہیں میں نے جنم دیا ہے، اس لئے مُجھے تم سے زیادہ احساس ہے اِس کا”۔

“عجیب ماں ہو تُم، اپنی ہی بیٹی کو جانوروں کیطرح باندھا ہوا ہے”

اُس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور دانت پیستے ہوئے بولی، “اسلئے کہ اگر میں اِسے جانوروں کی طرح نہ باندھوں، تو جانور اِسے بھنبھوڑ ڈالتے ہیں”۔

وہ اپنی رو میں بولتی گئی۔ خالص دیہاتی پنجابی مجھے بھی پوری طرح سمجھ نہیں آتی لیکن اُس کی باتوں کا جو مفہوم میری سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ اگرچہ وہ لڑکی ذہنی طور پر معذور تھی لیکن بے ضرر تھی۔ کچھ عرصہ قبل چند لڑکوں نے کھیتوں میں لے جاکر اُسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ معصوم لڑکی کو نہ کسی بات کا ہوش نہ احساس۔ اپنے کپڑے ہاتھوں میں تھامے جب وہ گھر واپس آرہی تھی تو محلے کے نوجون اور بچے اُس پر آوازے کستے رہے۔ بات کرتے کرتے وہ رو پڑی۔

“تُمہیں بڑا احساس ہے ناں اس کا۔ تو جاؤ اور اُن درندوں سے پُوچھو کہ اُنہیں اپنی ہوس پوری کرنے کیلئے میری بے زبان بچی ہی ملی تھی”۔

میں بوجھل دل کیساتھ وہاں سے نکلا تو پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ نیوز کاسٹرز جب زنجیروں میں جکڑی کسی لڑکی کی خبر دیتے ہیں تو اُن کے لعن طعن کا نشانہ “سنگدل ماں باپ” ہوتے ہیں۔ وہ وحشی درندے جو ان والدین کے موم جیسے دلوں کو پتھر میں بدل دیتے ہیں، خبر میں کہیں نہیں ہوتے۔

آج کل جب لاہور اور فیصل آباد میں کمسن بچیوں سے جنسی زیادتی کی خبریں مسلسل نیوز چینلز پر چل رہی ہیں، تو مجھے وہ زنجیر بپا لڑکی بُری طرح یاد آرہی ہے۔ اس ملک میں مردوں کی سرشت میں وہ درندگی شامل ہوگئی ہے کہ اُن کی ہوس کے سامنے معصوم بچوں کا بچپنا اور شاہ دولوں کی معذوری بھی رُکاوٹ نہیں بنتی۔

کاش کہ جنسی زیادتی پر عورت کے بجائے مرد کا پیٹ پُھولتا۔

وہ میڈیا جس نے کفار کی فنڈنگ پر فحاشی پھیلا پھیلا کر قوم کا حال یہاں تک پہنچا دیا ہے۔
اسلامی سزاؤں کو ظلم کہتا ہے تو مجھے شدید غصہ آتا ہے۔
جب اسلامی سزائیں دی جانے لگیں گی۔
جب زانی کو سنگسار کیا جائیگا۔
جب ڈکیت کو عوام کے سامنے لٹکایا جائیگا۔
جب چور کے ہاتھ کاٹے جائینگے
تو دیکھینگے کون زنا کریگا اور کون چوری۔
لیکن یہاں تو لوگوں کو اسلام کی سزائیں ظلم لگتی ہیں۔
جبکہ اسلام جتنا پر امن معاشرہ چاہتا ہے اتنا امن کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔
لیکن سمجھے کون!!!!

Leave a comment